Tuesday, April 12, 2016

غزل | آسائشیں چھوڑ دیں اب ضرورتوں کا کیا کروں

آسائشیں چھوڑ دیں اب ضرورتوں کا کیا کروں
خود بھوکا رہ بھی لوں پر بچوں کا کیا کروں
میرا ضمیر سلامت، ہے نیک و بد کی خبر بھی
انسان ہوں آخر، اپنی مجبوریوں کا کیا کروں
تُو ہوا جو میرا ہمسفر، عزیز تر ہوا راستہ
رہگزر پہ دل لگے تو منزلوں کا کیا کروں
ہجراں جانگسل سہی مگر نوشتہ وصال ہے
قربتوں کے بیچ حائل ان فاصلوں کا کیا کروں
اک دنیا بُلا رہی کہ عظمتیں ہیں منتظر
اور تیری پھیلی ہوئی بانہوں کا کیا کروں
ابرار قریشیؔ

No comments:

Post a Comment