Wednesday, October 7, 2015

نظم | گلہ

 میں جب اُٹھ کے
جانے لگا تھا  تمھارے پہلو سے ،
تم نے کیوں روک نا لیا؟
 ہاتھ میرا تھام کر اپنے پاس
کیوں بٹھا نا لیا؟
ایسے جو چلا تو بہت دور چلا جاؤں گا،
کیا تم نہیں جانتے تھے
کیا تم نہیں جانتے تھے کہ تم سے الگ
زندگی عجب اک بار سا ہو اجائے گی
گھبرا کے زمانے کی چالوں سے ہم
کس کے پہلو میں اماں لیں گے؟
 کہاں ڈھونڈیں گے یہ ساحر آنکھیں
جن میں اک بار دیکھ کر خود کو بھول جائیں
ایسے ہونٹ جن پہ کھلتی ہے زندگی
تھکن سے چُور ہوجائیں گے جب
تو کن گھنیری زلفوں کے سائے میں آرام کریں گے
کیا تم نہیں جانتے تھے
 کہ تمھارے پہلو سے اُٹھتے جان جاتی ہے
کیا تم نہیں جانتے تھے کہ تم سے الگ
چلا ہوں تو دو قدم پہ لڑکھڑا جاؤں گا
اکیلا چلا ہوں تو بہت دور جا نا  پاؤں گا
تو کیوں تم نے روک نا لیا؟
میرا ہاتھ تھام کراپنے پاس،
کیوں بٹھا نا لیا؟
مجھے گلہ ہے تم سے۔۔۔۔


Friday, July 3, 2015

نظم | تھکن

‏تھک چکا ہوں تیری یاد سے
آرذو کے بار سے
اب مل جا مجھے یا پھر
محو ہوجا قرطاسِ حیات سے!

ابرار قریشی

Friday, May 29, 2015

سوکھی آنکھوں سے پھر سپنے دھو.لیتا ہوں

اپنے مطلب کو ہنستا ہوں، مطلب کو رولیتا ہوں
آج کا انساں ہوں، جیسا وقت ہو ویسا ہو لیتا ہوں
مجھے اپنے مفاد عزیز تر ہیں لوگوں سے
جو میرے حق میں ہو میں اسی کا ہو لیتا ہوں
مجھ سے وابستہ لوگ میری مجبوری ہیں
میرا کیا ہے، میں بھوکا بھی سو لیتا ہوں
غیر وطن میں سب یاد بہت ہی آتے ہیں
سوکھی آنکھوں سے پھر سپنے دھو لیتا ہوں
راتیں اکثر آنکھوں میں کٹ جاتی ہیں
میں جاگے جاگے خوابوں میں سو لیتا ہوں

Wednesday, January 21, 2015

زندگی محبت کی قیمت ہے

سانسوں کی امانت ہے دھڑکنوں کی زینت ہے
زندگی محبت کی قیمت ہے
محبت تم ہو اور تم سے دور زندگی، زندگی نہیں
زیست کے نام پہ فقط
وقت کے پینترے بدلے ہیں
ہم راستوں میں بھٹک رہے
منزلیں وہیں کھڑی ہیں،
فاصلے اور بھی بڑھے ہیں
محفل میں تنہائی ہے، اور  تنہائی میں تمھاری یادیں
تمھاری یادوں کو سہارے تم سے دور
ہر صبح یوں شام میں ڈھلتی ہے
جیسے پربتوں پر سورج کی تمازت سے

دھیرے دھیرے برف پگھلتی ہے