Tuesday, August 26, 2014

نظم | ندیا پار رہتا ہوں


تم سے جب دور ہوتا ہوں
بہت مجبور ہوتا ہوں
کچھ کر نہیں سکتا
کچھ کہہ نہیں سکتا
سچ کہوں میں تم سے
اب دور رہ نہیں سکتا
شدتِ تنہائی سے جب
چُور ہوجاتا ہوں میں
تمھارے اتنا پاس ہوتا ہوں
کہ خود سے دور ہوجاتا ہوں میں
پھر یادوں کے سفینے پر
مہتاب کے سینے پر
خوابوں کی سیر کو نکلتا ہوں
خواہشوں کی رہگزر پہ ٹہلتا ہوں
ہوا سے کان لگا کر
تمھارے باتیں سنتا ہوں
سر دھنتا ہوں
پل پل گنتا ہوں
بہت بے چین رہتا ہوں
بہت بیقرار رہتا ہوں
ملنے آ نہیں سکتا
میں ندیا پار رہتا ہوں