کون ہوتے ہیں جو ہجر میں مر جاتے ہیں
وہ ہم سے بچھڑ گیا اور ہوا کچھ بھی نہیں
میں نے اس سے پوچھا محبت کیا ہے
مسکرایا، نظریں چرا کہ بولا کچھ بھی نہیں
سنا تھا الفت میں راحت ہے
ہمیں تو درد کے سوا ملا کچھ بھی نہیں
آ دیکھ اب بھی تیرے انتظار میں
میرا وجود آنکھوں کے سوا کچھ بھی نہیں
تیرے دھیان کی آس میں خواب یوں جلے ہیں
اب راکھ کے سوا بچا کچھ بھی نہیں
No comments:
Post a Comment