ٹوٹے سلسلوں کا، منقطع رابطوں کا دُکھ
زندگی کیا ہے بجز ان کہی باتوں کا دُکھ
یہ لفظ میری خامشی کا نوحہ ہیں
ہائے وہ عہد گزشتہ وہ خودفریبیوں کا دُکھ
نا ملنا بچھڑنے سے بہتر ہے
بہت جانگسل ہے بچھڑے ہوؤں کا دُکھ
سبھی جانتے ہیں جھرنے کا اضطراب
کوئی نہیں سمجھتا لیکن سمندروں کا دُکھ
موجود تو ہے وہ لیکن میسر نہیں
عجیب منفرد ہے قربتوں کا دُکھ
مسکراہٹ کو کیا خبر ہونٹوں کے کرب کی
آنسو کب جانتے ہیں آنکھوں کا دُکھ
شہر میں وبا پُھوٹی ہے لوگ مر رہے ہیں
اور ہمیں کھائے جارہا ہے زندوں کا دُکھ
No comments:
Post a Comment