سخن پسند دوستوں کے لئے میری ادنیٰ سی کوشش، امید ہے آپکو اچھی لگے لگی۔ اپنی پسند ناپسند اور قیمتی آراء سے ضرور نوازیئے گا۔ ابرار قریشی
Friday, March 23, 2012
Tuesday, March 13, 2012
غزل| خُم و ساغر سے نہ بادہ و پیمانے سے
خُم و ساغر سے نہ بادہ و پیمانے سے
محفلِ تو سجتی ہے یار کے آ جانے سے
عقیدت ہے یا مجبوری، بات کوئی بھی ہو
تیرا ذکر آ ہی جاتا ہے کِسی بہانے سے
سمجھ سے با لاتر ہے یہ ماجرا محبت کا
گرہیں اور بھی لگتی ہیں ، سُلجھانے سے
انہی لوگوں میں رہتا ہے روز و شب
پھر بھی کتنا جدا لگتا ہے زمانے سے
کتنی ہی اُونچی کیوں نہ کر لے اُڑان
پنچھی کبھی غافل نہیں ہوتا آشیانے سے
ابرار قریشی
Friday, March 9, 2012
غزل | رات یوں رُخسار پہ تیری یاد کے آنسو مہکے
رات یوں رُخسار پہ تیری یاد کے آنسو مہکے
اندھیری رات میں جیسے تنہا کوئی جگنو مہکے
پاکیزہ چاندنی سے کیسے مُعطر ہورہی ہے فضا
تیرے پہلو کی خوشبو سے جیسے میرا پہلو مہکے
تیز ہوا یوں پتوں سے ٹکرا کے گزرتی ہے
اک لمبی خامشی کے بعد جیسے تیری گفتگو مہکے
میں اور اک غزل لکھ رہا ہوں تیرے نام سے
تیرے خیال سے میرے وجدان کی آرذو مہکے
اک بار یوں رکھ دے میرے سینے پہ اپنا ہاتھ
چاک گریباں رہے نہ رہے تمام عمر یہ رفُو مہکے
ابرار قریشی
غزل | پُرانے تعلق کو نئے رابطوں کی حاجت ہوئی
پُرانے تعلق کو نئے رابطوں کی حاجت ہوئی
دل کو پھر تیری دھڑکنوں کی ضرورت ہوئی
میرے دن ہوئے تیرے چہرے کی ضو سے روشن
نیند تو جیسے تیرے خوابوں کی امانت ہوئی
وہ پت جھڑ تھا ، نہ ہی پھول کھلنے کا موسم
عام سے لمحے کی بہت خاص گھڑی تھی کہ محبت ہوئی
کبھی تو ہوا وصال لمحوں میں بھی فرُقتوں کا خیال
کبھی فاصلوں میں بھی وصل سی راحت ہوئی
ابرار قریشی
غزل | چارہ گرو میری زندگی کس رنگ میں ڈھلتی جارہی ہے
میرا غم غلط ہو رہا ہے کہ اُداسی سُلگتی جا رہی ہے
دل کی ویرانیوں سے کہو خاطر جمع رکھیں ،
یونہی خامشی میرے بام و در پہ بھی اُترتی جا رہی ہے
اے مُحبت ِ ناکام ، میرے ہاتھ کی ریکھاوَں میں اک ،
ریکھا ، کُچھ زندگی سے آگے تلک چلتی جا رہی ہے
دُور ہو کہ دل میں بسنے والے ، غم کا سبب بننے والے
تیری یاد کا غم، تُجھے بُھول جا نےکی خوشی بنتی جارہی ہے
میں اک چراغ ِ الم ہوں اور قربت ِ ہوا کا شوق ہے
وائے حسرتا، یونہی شوق میں زندگی، جلتی بُجھتی جارہی ہے
تیری یادوں سے گریزاں تیرے خیالوں میں لرزاں جانِ قریشی
کٹ رہی ہے زندگی یوں کہ جیسے قید کوئی گھٹتی جارہی ہے
ابرار قریشی
اشعار | قربت کی تیری وحشتوں نے اجاڑا میرے آشیانے کو
قربت کی تیری وحشتوں نے اُجاڑا میر ے آشیانے کو
ڈر ایسا تیری جفا نے ڈالا، ترس گئے ہم ہاتھ ملانے کو
بھرے شہ ر میں کوئی آشنا ہی نہیں ، اور اس پر بھی
ہمی کو ٹھہرایا مجرمِ تنہائی، جانے کیا ہوگیا زمانے کو
غزل | خانہء دل میں یاد ِ ماضی کے خزانے جاگے
پھر تیری یاد آئی پھر درد پُرانے جاگے
خوابیدہ تھے کب سے گلستاں ہاےَ خیال میں
اک تیرے غم سے کتنے غم کے بہانے جاگے
جواں پھر ہوئی رُت بہار کی
دل میں پھر گزرے ہوےَ زمانے جاگے
مچلنے لگی وہی پہلی سی قربتوں کی خواہش
پہلو میں پھر بچھڑے ہوےَ یارانے جاگے
راز کی طرح جو سینہ ہاےَ جہاں میں دفن تھے
آج پھر سے تیرے میرے وہ فسانے جاگے
Monday, March 5, 2012
Subscribe to:
Posts (Atom)