غبارِ آوارہ کی مانند، بے سمت منزل کی جانب
میں تھک گیا ہوں چلتے چلتے، تم اب ساتھ چلو
تنہا چلو تو گلستاں میں بھی دشت سی وحشت
کانٹوں کی رہگزر بھی گلزار بنے جب ساتھ چلو
اندیشہ انجام کیسا، یہ ان کہے سوال کیونکر؟
دعویٰ ہے گر محبت کا تو بے سبب ساتھ چلو
اسی امید پہ ہوں پیہم سفر میں اے دوست
میں تھک گیا ہوں چلتے چلتے، تم اب ساتھ چلو
تنہا چلو تو گلستاں میں بھی دشت سی وحشت
کانٹوں کی رہگزر بھی گلزار بنے جب ساتھ چلو
اندیشہ انجام کیسا، یہ ان کہے سوال کیونکر؟
دعویٰ ہے گر محبت کا تو بے سبب ساتھ چلو
اسی امید پہ ہوں پیہم سفر میں اے دوست
کبھی قصد سفر کرو تو کیا عجب ساتھ چلو
دن گزر جاتا ہے زمانے کے جھمیلوں میں
بہت طویل ہے مگر مسافتِ شب، ساتھ چلو
بہت طویل ہے مگر مسافتِ شب، ساتھ چلو
No comments:
Post a Comment