Wednesday, June 1, 2016

غزل | دعویٰ ہے گر محبت کا تو بے سبب ساتھ چلو


غبارِ آوارہ کی مانند، بے سمت منزل کی جانب
میں تھک گیا ہوں چلتے چلتے، تم اب ساتھ چلو

 
تنہا چلو تو گلستاں میں بھی دشت سی وحشت
کانٹوں کی رہگزر بھی گلزار بنے جب ساتھ چلو

 
اندیشہ انجام کیسا، یہ ان کہے سوال کیونکر؟
دعویٰ ہے گر محبت کا تو بے سبب ساتھ چلو

 
اسی امید پہ ہوں پیہم سفر میں اے دوست
کبھی قصد سفر کرو تو کیا عجب ساتھ چلو
دن گزر جاتا ہے زمانے کے جھمیلوں میں
بہت طویل ہے مگر مسافتِ شب، ساتھ چلو


Tuesday, April 12, 2016

پنجابی نظم | پردیسی دا دکھڑا

توں مائے آکھیا سی جا پَترا
دیس بگانے رب راکھا تیرا
سر اُچا رکھیں، مڑ نا وکھیں
فیر پاویں خیر دا پھیرا
توں مائے آکھیا سی جا پَترا
دیس بگانے رب راکھا تیرا
جو چاہیں سو توں پائیں
تینوں رب بنائے بادشاہ
دکھ الم دا سایا نا ویکھیں
ہوون پورے تیرے سارے چاہ
پر مائے، دیس بگانے آکے
میرے تے اوکھے ہوگئے ساہ
روون دیندے نا ہسنڑ دنیندے
لوک پرائے کھان نوں پیندے
میری سندے نا اپنی کیہندے
اک دوجے توں وی اکے رہیندے
کنوں سناواں حال دل دا
ایتھے کوئی یار نئیں مل دا
چنگا ہوواں ماڑا ہواں
کسے نوں چیتا نئیں میرا
سڑکاں اتے بے مطلب پھردا رہناں
سچ پچھیں مائے میرا کلیاں دا
گھر جان نوں جی نئیں کردا
نکسے نوں فکر نئیں،
کھالیا کہ بھکا اے
جگراتا کیتا کہ ستا اے
پاویں دیر ہووے سویر ہووے
باہر کنا ای ہنیر ہووے
کم توں  چھٹی نئیں ملدی
ایتھے حال پچھن والا کوئی، نا توں
سینے نال لا لا گل میرے چمُدی
کوہلو دے بیل وانگوں مائے
رات دن گھمی جاناں
کی کرنی میں ایہو جی کمائی
جیہڑی گھر والے راہ نا لیائی
سب اپنے پرائے بھل گئے
کنے پیارے مٹیاں اچ رل گئے
میرا ایتھے دل نئیں لگدا
ناں کوئی سجن بیلی دسے
ناں ماپے ناں ہی کوئی پین پراہ
مینوں چھیتی اپنے کول بُلا
توں مائے آکھیا سی جا پَترا
دیس بگانے رب راکھا تیرا

http://chaikhanah.com/2016/04/06/pardesi/

غزل | آسائشیں چھوڑ دیں اب ضرورتوں کا کیا کروں

آسائشیں چھوڑ دیں اب ضرورتوں کا کیا کروں
خود بھوکا رہ بھی لوں پر بچوں کا کیا کروں
میرا ضمیر سلامت، ہے نیک و بد کی خبر بھی
انسان ہوں آخر، اپنی مجبوریوں کا کیا کروں
تُو ہوا جو میرا ہمسفر، عزیز تر ہوا راستہ
رہگزر پہ دل لگے تو منزلوں کا کیا کروں
ہجراں جانگسل سہی مگر نوشتہ وصال ہے
قربتوں کے بیچ حائل ان فاصلوں کا کیا کروں
اک دنیا بُلا رہی کہ عظمتیں ہیں منتظر
اور تیری پھیلی ہوئی بانہوں کا کیا کروں
ابرار قریشیؔ

نظم | منظر

زمیں پہ کچھ جچتا ہے
نا آسماں کا چاند اچھا لگتا ہے
ٹھہرے ہوئے پانی میں جیسے
دھیرے دھیرے عکس چلتا ہے
میں جب بھی تم کو سوچتا ہوں
میرے ارد گرد ایسا منظر بنتا ہے
میں لمحے میں ٹھہرا رہ جاتا ہوں
اور لمحہ گزر جاتا ہے
مجھ پہ تمھاری یاد کا حال
کچھ ایسے آتا ہے
میں، میں نہیں رہتا
یاد کا مجسمہ ہوجاتا ہوں
اپنے سوا سب دکھائی دیتا ہے
جیسے آئینہ ہوجاتا ہوں میں
کہنے لگوں تو کبھی
موقع نہیں ملتا کبھی بات نہیں بنتی
بات ہے تو فقط اتنی سی،
محبت حد سے بڑھ جاتی ہے
تمھاری جب یاد آتی ہے

نظم | غلط فہمی

دیکھو، یہ غلط فہمی رہنے دو

 کلئیر مت کرو

بات کلئیر ہوگئی تو

کوئی بات نہ رہے گی،

یہ جو دل میں بے کلی کے بے کسی کے ولولے ہیں

 برسوں انہیں پالا ہے میں نے

بہت مشکل سے اپنی خواہشوں کے

سانچے میں ڈھالا ہے میں نے

انہیں یوں رسوا نہ کرو

میرے دل کے نہاں خانوں میں رہنے دو

تم نہیں تھے تو یہی جذبے

مرے آنسوؤں کے مرے قہقہوں کے

میرے بے خواب رتجگوں کے

میری بے رنگ صبحوں کے

,میری بے زار راتوں کے

میری تنہائی کے ساتھی تھے

تمہی کہو اب میں کیسے

انہیں چھوڑ دوں

واماندہ محبت ہو کر ان سے

منہ موڑ لوں؟

تمہاری رفاقت کا کیا پل بھر ہے پھر کیا پتہ

یہ جذبے تو میرے اپنے ہیں

انہیں میرے پاس ہی رہنے دو

میرے زخموں کا یہ مرہم ہیں

میرے سپنوں کی دنیا میں اب

یہی مایوس تمنائیں ہم تم ہیں

دیکھو، یہ غلط فہمی رہنے دو

 کلئیر مت کرو

بات کلئیر ہوگئی تو

کوئی بات نہ رہے گی