تیری عنایتوں پہ گلہ نہیں ہرچند بے معنی و بے اثر ہیں
کہ میرا کُل اثاثہ ، لفظ ہیں
یہی ، سو تیری نذر ہیں
خود فریبی کے ریگزاروں سے آگے نکل کے دیکھو
سب کے پاؤں چھلنی مگر سبھی عازمِ سفر ہیں
کس کو دوں صدائیں
، کون میری اب سُنے
گا ؟
میں کہ غریب ٹھہرا اور ہمسفر
سبھی صاحبِ زر ہیں
ہے جس رہگزر سے گُریز
مجھے ، اسی پہ تیرا آشیاں
تیرے آشیاں کی راہگزر پہ
خواہشوں کے کھنڈر ہیں
سیاہ رات کے پیرہن سے جھانکتے یہ ستارے
تیرگی کے آنچل میں
نئی صبح کے مظہر ہیں
No comments:
Post a Comment