ذرا سی بات کے بن گئے فسانے کیسے
ابھی سنبھلا ہی نہیں تھا کہ پھر اسیر ہوا
چشمِ یار ، بیٹھے تیرے نشانے کیسے
نبھانا تو کیا ، اب وعدہ ہی نہیں کرتے
بارِ خدایا ،آگئے ہم پر یہ زمانے کیسے
ایسا بھی نہیں کہ ہم بھول گئے
تم یاد ہی نہیں آئے ، نجانے کیسے
کہہ دین ے میں قباحت کیا ہے؟
گر عشق ہے تو پھر بہانے کیسے
No comments:
Post a Comment