کبھی ، اے کاش ، میں یہ معجزہ ِ ہُنر دیکھوں
تیرے مزاج پہ اپنے لہجے کا اثر دیکھوں
ترک ِ خواہش ہی ہوئی تکمیل ِ حسرت نہیں دیکھی
خواہش ہے کہ عُمر تیرے ساتھ کرکے بسر دیکھوں
تلخ یادیں ہیں ، تشنہ کامی ہے ، حسرتیں ہیں مگر
جنوں کہتا ہے کہ عمرِ رفتہ کو بارِ دگر دیکھوں
تجھ کو زمانے کی فکر بھی ، انجام کا خوف بھی
میں یہ کہتا ہوں ، جو کرنا ہے بس کر دیکھوں
تنہا ہوں ، تو گھر میں بھی صحرا سی وحشت
تُو ہم سفر جو ہو ، تو صحرا کو بھی گھر دیکھوں