Tuesday, March 5, 2013

بلا عنوان


سردیوں کی طویل راتوں میں
بے ربط گفتگو تا وقتِ سحر
خامشی کے سلسلوں میں کہیں
تمھاری سرگوشیوں کی لہر
بے نام آنسوؤں کے سیلِ رواں میں
سسکیوں کا موہوم سا وقفہ
مجھے اب تلک یاد ہے وہ،
 آغازِ محبت کا پہلا مرحلہ
نہ جھگڑا خرد و جنوں کا
وفا جفا کے وعدے نہ قسمیں کوئی
سیدھی سی تھی سانسوں کی ڈور
اک دوسرے سے لپٹی ہوئی
لمحوں کی جو بات تھی وہ
سالوں میں ڈھلتی رہی بڑھتی رہی
باتوں سے جو بات نکلی تھی وہ
 سانسوں کی صورت چلتی رہی
نجانے کہاں سے آیا اچانک
پھر موسم تغافل کا، رنجشوں کا
کوئی اجنبی سا بادل جو لے کر آیا
نہ ٹوٹا پھر زور بارشوں کا
وہ جل تھل ہوا کہ الاماں
سالوں کی محنت سے جو تھا بنا
اک آن میں اجڑا
اپنے خوابوں کا آشیاں
اب، تنہائی کی طویل راتوں میں
رت جگے ہیں الجھنیں ہیں تا وقتِ سحر
خامشی کے سلسلوں میں گونجتی ہے
تمھاری سرگوشیوں کی موہوم لہر

No comments:

Post a Comment