گرد گرد منظر ہیں
زرد زرد چہرے ہیں
دیوار و در سے بے جھجک
افتادگی عیاں ہے
میرے شہر میں لوگ اب
اپنے سائے سے بھی ڈرتے ہیں
مسکراہٹیں ندارد ، اب تو
بات بھی احتیاط سے کرتے ہیں
بین کرتی ماوں کی صدائیں
روز کا منظر بن چکی
نفرتیں سرایت ہیں چار سو
پنڈی سے کوئٹہ، خیبر سے کراچی
بے سمت ہو چکا ہے قافلہ
غپر اٹھائے پھرتا ہے علم
اوروں کی خاطر میں نے
خود اپنے سر کئے قلم
میرا راہبر ہی راہزن نکلا
کہوں کس سے داستان الم
مفت ملتی ہے جو سر بازار
خدایا تیری دنیا میں اب
!...وہ جنس ارزاں ہوئے ہیں ہم
No comments:
Post a Comment