Sunday, October 7, 2012

غزل | ہم اہلِ خرد کی یوں بھی جنوں سے نسبت نہیں ملتی


ہم اہلِ خرد کی یوں بھی جنوں سے نسبت نہیں ملتی
کبھی ستارے نہیں ملتے ،  کبھی  قسمت  نہیں ملتی
تمنا   روز  کرتے  ہیں  تم  سے  مل ہی جا نے کی 
کبھی   رستہ  نہیں   ملتا  ،  کبھی اجازت نہیں ملتی
زیرِ غور  ابھی  تک  ہے ، معاملہ ترکِ مراسم  کا
کیا   کریں ، تیری  یاد  ہی  سے فرصت نہیں ملتی
اچھا  ہے  فیصلہ عداوت سے بدلنے کا ،  یوں بھی
محبت   کے   بدلے جہاں میں ،  محبت   نہیں  ملتی
اُسکے کمال  ہونے  میں  شک ہی   کیسا    دوستو
اُسکی  مجھ   سے   کوئی  بھی  عادت   نہیں  ملتی
سخن  وری  کمالِ  فن سہی،  لیکن ہنر نہیں قریشی
شاعری  سے  داد  تو ملتی  ہے  ، دولت  نہیں ملتی

ابرار قریشی

2 comments:

  1. کمال کے شعر ہیں ،سارے کے سارے ہی کمال کے شعر ہیں۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

    ReplyDelete
  2. پسندیدگی کا شکریہ بھائی

    ReplyDelete