تبسمِ مجلس بھی گیا، گریہ تنہائی بھی گیا
تم کیا گئے کہ سودائے ہمنوائی بھی گیا
اتنی مدت بعد ملا اور اس تکلف سے
تعلق تو رہا نہیں ، زعمِ شناسائی بھی گیا
وہ گیا، اسکا جانا مقدر تھا مگر اس کے ساتھ
رونقِ محفل بھی گئی، ذوقِ چمن آرائی بھی گیا
اک ذرا فرصتِ گناہ ملی اور بہک گئے
ریاضتِ عمری گئی، زعمِ پارسائی بھی گیا
مبتلا جو ہوا مسیحا مرضِ خود نمائی میں
دوا کی تاثیر گئی، کارِ مسیحائی بھی گیا