خود کی تلاش میں نکلے تھے دوستوں کے ساتھ
منزلیں پھر بدلتی رہیں راستوں کے ساتھ
یاد وہ آتا ہے مجھ کو مکمل حوالوں کے ساتھ
مٹی کی خوشبو جیسے بارشوں کے ساتھ
کہانی محبت کی بس اتنی سی ہے
وہ بھی بدلتا رہا موسموں کے ساتھ
رات باقی تھی مگر چاند سوگیا تھک کر
جاگتا ہوا میری خواہشوں کے ساتھ
کارِ دنیا میں سب فراموش ہوگیا آخر
غمِ جاناں بھی رکھا تھا طاق ہر کتابوں کیساتھ