تبسمِ مجلس بھی گیا، گریہ تنہائی بھی گیا
تم کیا گئے کہ سودائے ہمنوائی بھی گیا
اتنی مدت بعد ملا اور اس تکلف سے
تعلق تو رہا نہیں ، زعمِ شناسائی بھی گیا
وہ گیا، اسکا جانا مقدر تھا مگر اس کے ساتھ
رونقِ محفل بھی گئی، ذوقِ چمن آرائی بھی گیا
اک ذرا فرصتِ گناہ ملی اور بہک گئے
ریاضتِ عمری گئی، زعمِ پارسائی بھی گیا
مبتلا جو ہوا مسیحا مرضِ خود نمائی میں
دوا کی تاثیر گئی، کارِ مسیحائی بھی گیا
خود کی تلاش میں نکلے تھے دوستوں کے ساتھ
منزلیں پھر بدلتی رہیں راستوں کے ساتھ
یاد وہ آتا ہے مجھ کو مکمل حوالوں کے ساتھ
مٹی کی خوشبو جیسے بارشوں کے ساتھ
کہانی محبت کی بس اتنی سی ہے
وہ بھی بدلتا رہا موسموں کے ساتھ
رات باقی تھی مگر چاند سوگیا تھک کر
جاگتا ہوا میری خواہشوں کے ساتھ
کارِ دنیا میں سب فراموش ہوگیا آخر
غمِ جاناں بھی رکھا تھا طاق ہر کتابوں کیساتھ